امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیہ کے حالات زندگی
اسم گرامی
امام سیوطی کا اسم گرامی عبد الرحمن ہے آپ کے والد کا نام ابو بکر کمال الدین ہے۔
خاندانی پس منظر
امام جلال الدین سیوطی نسلی اعتبار سے ایران نہیں آپ کے والد اس وقت کے شاہی امام تھے اس وقت ٫٫مستکفی باللہ ٬٬ کی حکومت تھی۔
امام سیوطی کے والد ابو بکر کمال الدین کو مشہور محدث حافظ ابن حجر عسقلانی کی شاگردی کا شرف حاصل ہے اس کے علاوہ انہوں نے اپنے وقت کے دیگر جید اہل علم سے بھی استفادہ کیا ہے۔ امام سیوطی کی عمر جب تین برس تھی اس وقت ان کے والد انہیں ساتھ لے کر حافظ ابن حجر عسقلانی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور ابن حجر نے اس کم سن بچے کو اجازت عامہ عطا کی تھی ۔
پیدائش
امام سیوطی ۸۴۹ھ بمطابق ۱۴۴۵ ء میں قاہرہ میں پیدا ہوئے تھے۔
سیوطی کہنے کی وجہ تسمیہ
امام سیوطی کا خاندان بغداد کا رہنے والا تھا امام سیوطی کے اجداد بغداد سے نقل مکانی کر کے ٫٫سیوط٬٬ نامی شہر میں آباد ہو گئے تھے اس نسبت سے امام کو سیوطی کہا جاتا ہے۔
بچپن : امام سیوطی نے بچپن میں قرآن مجید حفظ کرنا شروع کیا امام سیوطی کی عمر ابھی پانچ برس تھی اور آپ نے ابھی قرآن مجید مکمل حفظ نہیں کیا تھا کہ اسی دوران ۸۵۵ ھ میں آپ کے والد ماجد اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
تعلیم و تربیت
حفظ قرآن سے فارغ ہو کر امام سیوطی نے علوم دینیہ کی تحصیل شروع کی اور اپنے وقت کے جید اہل علم سے اخذ و استفادہ کیا۔
اساتذہ کرام
امام سیوطی کے چند مشہور اساتذہ کے اسماء درج ذیل ہیں۔ (۱) علم الدین صالح بلقینی (متوفی ۸۶۸)۔ (۲) شرف الدین مناوی (متوفی ۸۷۱) (۳) تقی الدین همنی (متوفی ۸۷۲) (۴) محی الدین کا فیچی (متوفی ۸۷۹) (۵) سیف الدین حنفی متوفی (۸۸) امام سیوطی نے اپنی تصنیف "حسن المحاضرہ " میں اپنے ۱۵۰ مشائخ کا تذکرہ کیا ہے۔
علمی اسفار
امام سیوطی نے علم کے حصول کے لئے تمام بڑے شہروں کا سفر کیا اور وہاں موجود اکابر اہل علم سے استفادہ کیا۔
عملی زندگی
تحصیل علم سے فارغ ہونے کے بعد امام سیوطی نے کچھ عرصہ تک مختلف سرکاری عہدوں پر فائز ہو کر عدالتی خدمات سر انجام دیں۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے ہر طرف سے کنارہ کشی کر کے درس و تدریس، افتاء اور تصنیف و تالیف کی طرف اپنی توجہ مبذول کر دی۔
تصانیف و تالیفات
امام سیوطی نے دس مختلف علوم میں پانچ سو سے زائد تصانیف اور تالیفات یادگار چھوڑی ہیں جن میں کچھ مختصر رسالے ہیں اور کچھ عظیم تصانیف ہیں۔ امام سیوطی کی ان تصانیف میں سے بعض کو ان کی زندگی میں ہی قبول عام نصیب ہوا امام سیوطی کی درج ذیل تصانیف اردو میں بھی دستیاب ہیں۔
1۔
تفسیر جلالین : یہ ایک مختصر تفسیر ہے اور درس نظامی کے نصاب میں شامل ہے۔
2-
الاتقان: یہ علوم قرآن کے بارے میں ہے جس میں امام زرکشی کی تصنیف "البرھان" سے کافی استفادہ کیا گیا ہے۔
3-
الخصائص الکبری: یہ نبی اکرم می بینم کے فضائل و کمالات کے بارے میں اپنی مثال آپ کتاب ہے۔
4-
شرح الصدور : یہ مردوں اور قبر کے حالات کے بارے میں ہے۔
5-
تاریخ الخلفاء: خلفاء راشدین، اموی اور عباسی خلفاء کی تاریخ کے موضوع پر لکھی جانے والی مقبول ترین تصنیف ہے۔
انتقال
امام سیوطی نے ۱۹ جمادی الاول ۹۱۱ھ میں وصال فرمایا۔