حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حالات

3 minute read
0

 



            حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حالات


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا اسم مبارک عبداللہ تھا۔ ابوقحافہ عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لٰوی بن عالب القرشی التیمی کے بیٹے تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مرہ میں جا ملتا ہے۔ نووی تہذیب میں لکھتے ہیں کہ ہم نے جو ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نام عبد اللہ بیان کیا ہے، یہی صیح اور مشہور ہے اور بعض کہتے ہیں کہ آپ کا نام عتیق تھا۔ مگر درست اور صحیح بات جس پر تمام علماء کا اجماع ہے یہ ہے کہ عتیق آپ کا نام نہیں تھا بلکہ لقب تھا اور یہ لقب آپ کا عتیق من النار یعنی دوزخ کی آگ سے آزاد ہونے کی وجہ سے ہوا۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے جسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ عتاقہ یعنی بوجہ حسن و جمال کے یہ لقب ہوا۔ مصعب بن زبیر اور لیث بن سعد اور ایک جماعت نے بھی یہی کہا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ لقب اس وجہ سے ہوا کہ آپ کے نسب میں کوئی بات قابل عیب نہیں ہے۔ مصعب بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کہتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کے ملقب بہ صدیق ہونے پر تمام امت محمدیہ ﷺ کا اجماع ہے کیونکہ آپ نے فی الفور بغیر توقف کے رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کی اور اس پر ہمیشہ قائم رہے اور کسی حال میں بھی آپ کو اس پر توقف یا خدشہ نہیں ہوا


                      حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خصوصیات


حالت اسلام میں آپ ﷺ کے مواقف رفیعہ تھے۔ جن سے ایک قصہ معراج ہے جس کے معاملہ میں آپ نے ثابت قدمی دکھائی اور کفار کو جواب دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اہل وعیال کو چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ  کے ساتھ ہجرت کی اور پھر غار میں اور تمام رستے میں آپ کے ساتھ رہے۔ جنگ بدر اور حدیبیہ کے دن آپ کا کلام فرمانا جبکہ فتح مکہ کی دیر کے سبب تمام لوگوں پر امر مشتبہ ہو رہا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر کہ ایک بندے کو خدا تعالیٰ نے دنیا و آخرت کے لیے تیار کیا ہے آپ کا رو پڑنا۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے وصال کے دن آپ کا ثابت قدم رہنا اور ایک فصیح و بلیغ خطبے سے لوگوں کو تسلی دینا، پھر مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر بیعت لینے کے لیے تیار ہو جانا، پھر اسامہ بن زید کو لشکر دے کر شام کی طرف بھیجنے کا اہتمام کرنا اور اس ارادے پر ثابت رہنا، پھر مرتدین (اسلام سے پھرنے والے) کی لڑائی کے لیے تیار ہو جانا اور اس بارے میں صحابہ سے مناظرہ کر کے دلائل کے ساتھ ان پر غالب آنا اور خدا کا آپ کے دل کی طرح ان کے دلوں کو بھی حق کے لیے کھول دینا، یعنی اہل ردّۃ کے ساتھ جنگ کے لیے ان کا بھی تیار ہو جانا ، پھر آپ کا فتح شام کے لیے لشکر روانہ کرنا اوران کو مدد بھیجتے رہنا، پھر آپ رضی اللہ عنہ کا ان تمام امور کو ایک ایسی بات سے ختم کرنا جو آپ کے شمائل و مناقب سے نہایت اعلیٰ ہے اور وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں پر خلیفہ مقرر کرنا ہے۔ غرضیکہ آپ کے مناقب و فضائل احساس سے باہر ہیں ۔ نووی کا کلام ختم ہوا ۔


  مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں فرمایا: 

میرا ارادہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے حالات کو ذرا تفصیل سے بیان کروں اور اس میں بہت سی باتوں کو جو مجھے معلوم ہو ئیں لکھوں اور علیحدہ علیحدہ ہر

ایک بیان کے لیے کئی ایک فصلیں مقرر کروں۔


               TLP Rizvi Team 


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)